حضرت مولانا شیخ ناظم عادل الحقانی رحمۃ اللہ علیہ

  • Admin
  • Oct 12, 2021

حضرت مولانا شیخ ناظم عادل الحقانی رحمۃ اللہ علیہ 

آپؒ ولایت کا ایک راز ہیں۔ امام المخلصین ہیں۔ اپنے میٹھے اور پیغمبرانہ اخلاق سے آپؒ نے سلسلہ نقشبندیہ کو تازگی بخشی ۔ بیسویں صدی کے آخری دور میں، جب قوم دہشت گردی اور فتنوں کے اندھیرے میں تھی اور زمین غم و غصہ کی آگ میں جل رہی تھی۔اس وقت آپکی تعلیم سے یہ عالم اللہ (عزوجل) اور اولیاء اللہ کی محبت سےمہک اُٹھا ۔ آپؒ اسرار عیاں کرنے والے ، ناظمِ نور ، شیخ الشیوخ ، اہل متقین اور اہلِ حق کے سلطان ہیں۔ آپؒ اس سلسلہ پر بحرِ علوم کی وہ برکھا ہیں جو دنیا کے ہر حصہ میں ارواح کو تازگی دیتی ہے۔ آپؒ سات براعظموں کے ولی ہیں۔ آپؒ کی شمع نے دنیا بھر سے پروانوں کو راغب کیا۔ آپؒ دیوانِ حق کا نوری لبادہ اُوڑھے ہوئے ہیں۔آپؒ اپنے دور میں منفرد ہیں۔ آپؒ زمین میں حبِ الہی میں لگایا ایک مخملی پھول ( گل ارکیده) ہیں۔ آپؒ  صوفی طریقت کے مالک ، حقیقت کو تعمیر کرنے والے ، دائرے کے رہنما ،آپؒ تمام اسرار کے مصرعے اور غزل ہیں۔آپؒ ولیوں کے آقا ہیں۔ سالک آپکے نوری کعبے کا طواف کرتے ہیں۔ آپ دائمی نور کا چشمہ ہیں،اور ایسی آبشار ہیں جو ہمیشہ بہتی رہے ، ایک دریا جس میں ہمیشہ طغیانی رہے ؛ بے کنار ساحلوں سے ٹکراتا ہوا، ایک بحرِ بیکران ہیں۔

حضرت مولانا شیخ ناظم حقانی رحمۃ اللہ علیہ 26 شعبان،1340ہجری 23 اپریل 1922 بروز اتوار ، قبرص ، “ لارناکا “ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد کی طرف سے آپؒ کا شجرہ نسب سلسلہ قادریہ کے بانی ، حضرے شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمتہ اللہ علیہ) سے ملتا ہے۔ آپؒ کی والدہ سے آپؒ کا نسب میولووی طریقت کے بانی حضرت سیدنا جلال الدین رومی (رحمتہ اللہ علیہ) کی طرف جاتا ہے۔آپؒ "حسنی ، حسینی " سید ہیں ، جو اپنے آباواجداد کی نسل کے ذریعہ سرکار دو عالم سیدنا محمد (ﷺ) کے اہل بیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے والد کی طرف سے آپؒ کو قادری طریقت سے فیض ملا اور اپنی والدہ ماجدہ سے ، میولوی طریقت سے فیض حاصل ہوا۔

قبرص میں اپنے بچپن کے دوران ، آپؒ سلسلہ قادریہ کے نظم و ضبط اور اس کی روحانیت کو جاننے کے لئے اپنے دادا کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے جو قادری طریقت کے ایک شیخ تھے ۔ شروع ہی سے آپؒ میں غیر معمولی علامات کا ظہور رہا۔ آپکا طرزِ عمل کامل تھا: آپؒ نے کبھی لڑائی نہیں کی اور نہ ہی کسی سے جھگڑا کیا۔ آپؒ ہمیشہ مسکراتے اور صبر کرتے۔والد کی جانب سے آپکے دادا حضور اور والدہ کی طرف سے نانا حضور نے آپکے روحانی راہ کی تربیت دی۔

آپؒ کی جوانی:

جوانی میں ہی ، مولانا شیخ ناظمؒ کو غیر معمولی طور پر بلند روحانی مقام کی وجہ سے بہت زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ “ لارناکا “ میں ہر کوئی ان کے بارے میں جانتا تھا ، کیونکہ نوعمری سے ہی وہ لوگوں کو نصیحت کرنے اور مستقبل کی پیش گوئی کرنے اور فوراََ انکشاف کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پانچ برس کی عمرِ مبارک سے ایسا ہوتا کہ جب آپکی والدہ آپ کو نہ ڈھونڈ پاتیں، تو تلاش کرنے پر ، آپ انھیں مسجد میں یا حضرت سیدتنا اُم الحرم(رضی اللہ عنہا) کے مقام پر موجود پاتیں۔جو رسول اللہ (ﷺ) کی ایک صحابیہ ہیں ، جن کی قبرِ مبارک کے ساتھ ہی ایک مسجد بنی ہوئی ہے ۔ سیاح بڑی تعداد میں اُن کے مقام پر آتے ہیں ، جو ان کی قبرِ مبارک کے اوپر خلا میں معلّق چٹان کا نظارہ دیکھ کر راغب ہوتے ہیں۔ جب آپکی والدہ آپ کو گھر لانے کی کوشش کرتیں تو وہ فرماتے، "مجھے یہاں سیدتنا اُم الحرم(رضی اللہ عنہا) کے ساتھ چھوڑ دیجیے ، وہ ہمارے آباؤ اجداد میں سے ایک ہیں۔" آپ کو اکثر سیدتنا اُم الحرم(رضی اللہ عنہا) سے بات کرتے دیکھا گیا ، جو کہ چودہ صدیاں پہلے وفات پاچکی تھیں۔ آپ سنتے اور پھر بولتے ، سنتے تھے اور جواب دیتے تھے ، گویا ، سیدتنا (رضی اللہ عنہا)کے ساتھ کوئی گفتگو ہو رہی ہے۔ جب بھی کوئی شخص آپ کو پریشان کرتا ، تو آپ فرماتے، "مجھے چھوڑ دیں ، میں اپنی دادی حضور کے ساتھ بات کر رہا ہوں جو اس قبر میں (موجود)ہیں۔"

دن کے وقت آپکے والدِ محترم نے آپؒ کو سیکولر علم کی تعلیم کے لئے سکول بھیجا ، اور شام کو آپؒ نے دینی علوم کا مطالعہ کیا۔ وہ اپنے ساتھی طالب علموں میں ایک باصلاحیت فرد تھے۔ ہر رات اپنی ہائی سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ، وہ اپنا وقت میلووی اور قادری طریقت کی تعلیم حاصل کرنے میں صرف فرماتے۔ آپؒ جمعرات اور جمعہ کو قادری اور میولوی حلقہ ذکر کا انعقاد فرما تھے۔

قبرص میں ہر شخص انھیں ایک بھرپور روحانی شخصیت کے طور پر جانتا تھا۔ آپؒ نے شریعت ، فقہ ،علمِ حدیث کی سائنس، منطق کی سائنس ، قرآن مجید کی تفسیر سیکھی اور آپ اسلامی مضامین کی تمام جہتوں پر فقہی احکامات دینے کے قابل تھے۔ آپ تمام تر روحانی سطوح سے گفتگو کرنے کے قابل تھے۔ آپکے پاس واضح الفاظ اور آسان تلفظ میں مشکل حقائق کی وضاحت کرنے کی (خدا داد)صلاحیت تھی۔

قبرص میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ، 1359 میں آپ استنبول چلے گئے ، جہاں آپکے دو بھائی اور ایک بہن رہائش پذیر تھے اور تعلیم حاصل کررہے تھے۔ انہوں نے ضلع بایزید میں واقع استنبول یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ اسی دوران وہ اپنے شیخ جمال الدین العلاسونی (قدس اللہ سرہ ) سے علمِ شریعت اور عربی زبان کا مطالعہ کر رہے تھے۔جو 1375 ھ / 1955 عیسوی میں انتقال فرما گئے۔ انہوں نے کیمیکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی اور اپنے ساتھیوں میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یونیورسٹی کے پروفیسرز نے انہیں تحقیق میں جانے کی ترغیب دی۔

انہوں نے کہا ، "مجھے جدید سائنس کی طرف کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میرا دل ہمیشہ سے روحانی علوم کی طرف راغب ہوتا ہے۔

اپنے شیخ سے ملاقات : مولانا شیخ عبد اللہ الفائز الدغستانیؒ :

آپؒ کو عام طور پر سلطان احمد کی مسجد میں دیکھا جاسکتا تھا ، رات بھر آپ غور و فکر کرتے رہتے ۔ آپ فرماتے ہیں:

"وہاں مجھے اپنے دل میں بڑی برکات اور بہت سکون ملا۔ اس مسجد میں، میں نے ہمیشہ اپنے دو شیخ ، شیخ جمال الدین الا السونیؒ اور شیخ سلیمان آزرومیؒ کے ساتھ اس مسجد میں فجر کی نماز پڑھی۔ وہ مجھے تعلیم دے رہے تھے اور روحانی علم میرے دل میں انڈیل رہے تھے۔ اس دوران میں نے بہت سارے کشف دیکھے ، جو مجھے دمشق کی مقدس سرزمین پر جانے کے لئے راغب کرتے ، لیکن مجھے ابھی تک اپنے شیخ کی اجازت نہیں ملی تھی۔ میں نے اپنے خیالات میں کئی بار ، فنا کی حالت میں ، حضرت محمد (ﷺ) کو دیکھا جو مجھے اپنی بارگاہ میں بلا رہے تھے ۔ میرے دل میں ایک گہری تڑپ تھی کہ میں سب کچھ چھوڑ کر حضور نبی کریم (ﷺ) کے شہر کی طرف ہجرت کروں۔"ایک دن ، جب یہ آرزو میرے دل میں شدت اختیار کر گئی، میں نے ایک خواب دیکھا جس میں میرے شیخ حضرت سلیمان ارذا رومیؒ تشریف لائے ، مجھے کندھے سے جھاڑ کر مجھ سے کہا ،” اب اجازت عطا ہوگئی ہے۔ آپکے راز اور آپکی امانت اور آپکی روحانی رہنمائی میرے ساتھ نہیں ہے۔ میں نے صرف اس وقت تک آپ کو (امانت کے طور پر اپنی) امان میں رکھا جب تک کہ آپ اپنے حقیقی شیخ کے لئے تیار نہ ہوجائیں ، جو میرے بھی شیخ ہیں ، حضرت عبداللہ الداغستانی (قدس اللہ سرہ) ۔ وہ آپ کی کنجیاں(چابیاں)تھامے ہوئے ہیں۔ تو شام میں اُن کے پاس جاؤ۔ یہ اجازت میری طرف سے اور پیغمبرِ اعظم سیدنا محمد (ﷺ) کی طرف سے ہے۔ [شیخ سلیمان ارزرومیؒ سلسلہ نقشبندیہ کے 313 اولیاء میں سے ایک تھے ، جو 313 پیغمبروں کے نقش قدم پر ہیں اور ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔

“یہ کشف ختم ہوا ، اور اس کے ساتھ ہی مجھے شام جانے کی اجازت مل گئی۔ میں نے اپنے شیخ کو اس خواب کے بارے میں بتانے کے لئے تلاش کیا۔ میں نے انھیں قریباً دو گھنٹے کے بعد مسجد میں آتے دیکھا۔ میں اُن کے پاس بھاگ کے گیا۔ انھوں نے بانہیں وا فرمائیں اور مجھ سے فرمایا، ‘بیٹا ، کیا آپ اپنے وژن سے خوش ہیں؟’ پھر مجھے معلوم ہوا کہ جو ہوا تھا، وہ سب کچھ جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا ، ‘انتظار نہ کریں۔شام کی طرف رخ موڑیں۔ ’انھوں نے شام میں شیخ عبد اللہ الفائزالداغستانی (قدس اللہ سرہ ) کے نام کے سوا ،مجھے کوئی پتہ یا کوئی اور معلومات نہیں دی۔ میں نے استنبول سے حلب تک ٹرین کے ذریعے سفر کیا ، جہاں میں کچھ عرصہ رہا۔ وہاں میں ایک مسجد سے دوسری مسجد جاتا ، نماز پڑھتا ، اسکالرز کے ساتھ بیٹھا اور عبادت اور مراقبے میں وقت گزارتا۔

“پھر میں نے حماة کا سفر کیا ، جو حلب کی طرح ایک بہت ہی قدیم شہر ہے۔ میں نے شام کی طرف بڑھنے کی کوشش کی ، لیکن یہ ناممکن تھا۔ فرانسیسی ، جو شام پر قابض تھے ، انگریزوں کے ذریعہ حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ چنانچہ میں نے حمص کا سفر کیا اور پیغمبر اکرم(ﷺ) کے ایک صحابی ، سیدنا خالد بن ولید (رضی الله عنه) کے مقام تک پہنچا۔ میں نے خالد بن ولید (رضی الله عنه) کی زیارت کی پھر میں مسجد میں گیا اور نماز پڑھی۔ ایک بندہ میرے پاس آیا اور کہا ، ‘میں نے کل رات ایک خواب دیکھا جس میں نبی اکرم، سیدنا محمد(ﷺ) میرے پاس تشریف لائے آپ(ﷺ) نے فرمایا، ‘میرا ایک پوتا کل یہاں آرہا ہے۔ میرے لئے اس کا خیال رکھیں۔ ’پھر آپ (ﷺ) نے مجھے دکھایا کہ آپ کیسے دکھتے ہیں اور اب میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ ہی وہ شخص ہیں۔ ’

“میں اُن کے ایسا کہنے سے اِس قدر متاثر تھا کہ میں نے اُن کی دعوت قبول کرلی۔ اُنہوں نے مجھے اس مسجد کے قریب ایک کمرہ دیا ، جہاں میں ایک سال رہا۔ میں نماز پڑھنے اور حمص کے دو ممتاز عالموں کی مجلس میں بیٹھنے کے علاوہ وہاں سے کبھی باہر نہیں نکلا تھا ، جو تلاوت (تجوید) ،(تفسیر) ،(علم الحدیث) اور فقہ پڑھاتے تھے۔وہ شیخ محمد علی عون السعودؒ اور شیخ عبد العزیز عون السعودؒ، حمص کے مفتی تھے۔ میں نے دو نقشبندی شیوخ، ابوالجلیل مرادؒ اور شیخ سعید السباعیؒ کی روحانی تعلیمات میں بھی شرکت کی۔ میرا دل شام جانے کو تڑپ رہا تھا۔ کیونکہ جنگ اتنی شدید تھی ، لہذا میں نے محفوظ راستے کے ذریعے لبنان کے طرابلس ، وہاں سے بیروت اور بیروت سے شام جانے کا فیصلہ کیا۔

سن 1364 ھ / 1944 عیسوی میں ، شیخ ناظمؒ بس کے ذریعے طرابلس چلے گئے۔ بس آپ کو بندرگاہ پر لے گئی اور انھیں وہاں چھوڑ دیا۔آپ وہاں اجنبی تھے، کسی کو نہیں جانتے تھے۔جب وہ بندرگاہ کے علاقے میں گھوم رہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ گلی کے مخالف سمت سے کوئی آرہا ہے۔ وہ شخص شیخ منیر المالکؒ تھے، جو طرابلس کے مفتی تھے۔ وہ ، اس وقت ، شہر کے تمام سلاسل تصوف کے شیخ تھے۔ انھوں نے قریب پہنچ کر کہا ، "کیا آپ شیخ ناظمؒ ہیں؟ میں نے ایک خواب دیکھا ہے جس میں نبی اکرم(ﷺ) نے مجھے فرما رہے تھے، ‘میرا ایک پوتا طرابلس آرہا ہے۔’آپ(ﷺ) نے مجھے آپکی صورت دکھائی اور مجھے بتایا کہ آپ کو اس علاقے میں ڈھونڈوں۔ آپ(ﷺ) نے حکم فرمایا ہے کہ آپ کا خیال رکھوں"

حضور شیخ ناظمؒ فرماتے ہیں:

“میں ایک ماہ تک شیخ منیر الملکؒ کے ساتھ رہا۔ پھر انہوں نے میرے لئے حمص اور حمص سے دمشق جانے کا انتظام کیا۔ میں سنہ 1945 عیسوی / 1365 ہجری میں ہجری سال کے آغاز پر جمعہ کے روز دمشق پہنچا۔ میں جانتا تھا کہ شیخ عبداللہ (قدس اللہ سرہ) سیدنا بلال الحبشی (رضی الله عنه) کے مقبرے کے قریب ، حي الميدان کے ضلع میں رہ رہے تھے جو قدیم دور سے رسول اللہ(ﷺ) کے اہل بیت اطہار کی آلِ پاک کی یادگاروں سے بھرا ہوا تھا۔

"مجھے نہیں معلوم تھا کہ شیخ کا گھر کون سا ہے۔ اسی وقت گلی میں کھڑے کھڑے مجھے ایک کشف عطا ہوا، کہ شیخ اپنے گھر سے باہر تشریف لا رہے ہیں اور مجھے اندر بلا رہے ہیں۔ یہ کشف ختم ہوگیا لیکن میں گلیوں میں کسی کو نہیں دیکھ سکا۔ فرانسیسیوں اور انگریزوں کی بمباری کی وجہ سے یہ خالی تھیں۔ ہر شخص خوفزدہ ہو کر، اپنے گھروں میں چھپا ہوا تھا۔ میں گلیوں میں تنہا تھا۔ میں اپنے دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ شیخ کا گھر کون سا ہے۔ پھر ایک کشف میں ،میں نے ایک مخصوص دروازے والا ایک خاص مکان دیکھا۔ میں دیکھتا رہا یہاں تک کہ مجھے وہ دروازہ مل گیا۔ جب میں دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے قریب آیا تو شیخؒ نے دروازہ کھولا۔ انہوں نے فرمایا، "خوش آمدید ، میرے بیٹے ، ناظم أفندي :

“اُن کی غیر معمولی صورت نے فوراً ہی مجھے متوجہ کیا۔ میں نے اس سے پہلے اُن سا شیخ کبھی نہیں دیکھا تھا۔اُن کے چہرے اور پیشانی سے نور امڈ رہا تھا۔گرم جوشی ان کے قلب سے وارد ہو رہی تھی اور اُن کے چہرے پر شاندار مسکراہٹ تھی۔ وہ مجھے اوپر کی طرف لے گئے ، اور یہ کہتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے کہ ، ‘ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔’

“میں دل سے ان کی معیت میں پوری طرح آسودہ و خوش تھا، لیکن مجھے آنحضور(ﷺ) کے شہر جانے کی آرزو تھی۔ میں نے ان سے دریافت کیا ، ‘میں کیا کروں؟‘ آپؒ نے فرمایا ، ‘کل میں آپ کو اپنا جواب دوں گا۔ ابھی کے لئے آرام کرو۔ ’آپؒ نے مجھے کھانے کی پیش کش کی اور میں نے ان کے ساتھ رات کی نماز ادا کی اور سوگیا۔صبح سویرے انھوں نے نمازِ تہجد کے لئے مجھے بیدار فرمایا۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی اتنی طاقت محسوس نہیں کی تھی جیسے اس نماز میں کی۔میں نے اپنے آپ کو بارگاہِ الہیٰ میں محسوس کیا اور میرا دل اُن کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہوگیا۔

"مجھے ایک کشف عطا ہوا اور میں نے خود کو لمحہ بہ لمحہ ہماری جائے نماز سے سیڑھی کے ذریعے بیت المعمور آسمانی کعبہ تک چڑھتے دیکھا۔ہر قدم ایک کیفیت تھی جس میں اُنہوں نے مجھے رکھا تھا ، اور ہر ایک درجے میں مجھے ، میرے دل میں ، وہ علم ملا تھا جس کے بارے، میں نے پہلے کبھی نہیں سیکھا تھا اور نہ ہی سنا تھا۔ الفاظ ، فقرے اور جملے ایک ساتھ ملا کر انتہائی عظیم الشان انداز میں، ہر لطائف

(سٹیٹ/درجے) میں میرے دل کے اندر پھیلا دیے گئے تھے،جب تک کہ ہم بیت المعمور تک نہیں پہنچ پائے۔ وہاں میں نے نماز کے لئے قطار میں کھڑے ہوئے 124،000 انبیاء اکرام کو دیکھا ، سیدنا محمد(ﷺ) ( اُن کے ساتھ) بطور امام تھے۔ میں نے دیکھا کہ 124،000 صحابہ کرام ان کے پیچھے قطاروں میں کھڑے ہیں۔پھر میں نے سلسلہ نقشبندیہ کے 7،007 اولیاء کو ان کے پیچھے نماز کے لئے کھڑا دیکھا۔پھر میں نے دیگر سلاسل کے 124،000 اولیاء ، نماز کے لئے قطار میں کھڑے دیکھے۔

سیدنا ابوبکر الصدیق (رضي الله عنه) کے دائیں جانب دو افراد کے لئے ایک جگہ باقی رہ گئی تھی۔ شیخ الاعظم عبداللہ الفائز الداغستانیؒ اُس کھلی جگہ پر گئے اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور ہم نے فجر کی نماز ادا کی۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی نماز کی ایسی مٹھاس کا تجربہ نہیں کیا تھا ، اور جب حضرت محمد (ﷺ) نماز کی امامت فرمائی تو آپ(ﷺ) کی تلاوت کا حسن،(الفاظ سے) بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جس کا احاطہ کوئی لفظ بھی نہیں کرسکتا ، کیونکہ یہ ایک خدائی معاملہ تھا۔ جب نماز مکمل ہوئی ،کشف ختم ہوگیا ، اور میں نے شیخؒ کو مجھ سے یہ فرماتے سنا کہ فجر کے لئے اذان دیں۔

انھوں نے فجر کی نماز ادا کی اور میں نے اُن کے پیچھے ادا کی۔ باہر سے میں دونوں افواج کی بمباری سن سکتا تھا۔ آپؒ نے مجھے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت فرمایا اور آپؒ نے مجھ سے فرمایا، ’’ اے بیٹے ، ہمارے پاس طاقت ہے کہ ہم ایک سیکنڈ میں اپنے مرید کو اسکے اسٹیشن تک پہنچا سکتے ہیں۔ جیسے ہی آپ نے یہ کہا آپ نے اپنی آنکھوں سے میرے دل میں جھانکا ، اور جیسے ہی انھوں نے ایسا کیا تو وہ پیلے رنگ سے سرخ ، پھر سفید ، پھر سبز اور کالی ہو گئیں۔ جب آپ نے میرے دل میں ہر رنگ سے وابستہ علم ڈالا تو اُن کی آنکھوں کا رنگ بدل گیا تھا۔

پیلے رنگ کی روشنی سب سے پہلے تھی اور سٹیٹ آف ہارٹ، (لطائف قلب)سے مطابقت رکھتی تھی۔ انھوں نے میرے اندر ہر طرح کا ظاہری علم ڈال دیا جو انسان کی روزمرہ زندگی کے لئے ضروری ہے۔ پھر انھوں نے سٹیج آف سر(لطیفہ سِرّ) سے ان چالیس سلاسل کا انڈیل دیا جو سیدنا علی (کرم اللہ وجہہ) سے آئے ، اور میں نے اپنے آپ کو ان تمام سلاسل میں ایک ماسٹر پایا۔ اس لطائف (سٹیج)کا علم منتقل کرتے وقت اُنکی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ تیسرا مرحلہ جو اسرار کا راز ہے،(سِرُّ الْسِرّْ) ، صرف سلسلہ نقشبندیہ کے شیوخ کیلئے ہے ، جس کے امام سیدنا ابوبکر( رضي الله عنه ) ہیں۔ جب آپ نے اس مرحلے سے میرے دل میں ڈالا تو ، اُن کی آنکھیں سفید رنگ کی تھیں۔ پھر وہ مجھے چھپے ہوئے (لطیفہ خفیٰ/خفی) میں لے گئے۔ جو پوشیدہ روحانی علم کا مرکز تھا ، جہاں اُن کی آنکھیں سبز رنگ میں تبدیل ہو رہیں تھیں۔ پھر وہ مجھے مکمل فنا کے اسٹیشن ، انتہائی پوشیدہ اسٹیشن (اخفا) تک لے گئے جہاں کچھ بھی نظر نہیں آیا اور اُن کی آنکھوں کا رنگ سیاہ تھا۔ یہاں آپ نے مجھے اللہ (عزوجل ) کی بارگاہ میں حاضر کیا۔ پھر وہ مجھے دوبارہ وجود میں لے آئے۔

“اس وقت اُن سے میری محبت اتنی شدید تھی کہ میں اُن سے دور رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ، اور میں اُن کے ساتھ ہمیشہ رہنے اور اُن کی خدمت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتا تھا۔لیکن پھر طوفان آیا ، ایک سونامی گزرا، اور سکون اڑ گیا۔ امتحان بہت بڑا تھا۔ میرا دل مایوسی کے عالم میں تھا جب آپؒ نے مجھ سے فرمایا، ‘میرے بیٹے ، آپ کے لوگ آپکے محتاج ہیں۔ میں نے آپ کو ابھی کے لئے کافی عطا کر دیا ہے۔ آج قبرص چلے جاؤ۔ ’میں نے اُن تک پہنچنے میں ڈیڑھ سال گزارا تھا۔ میں نے (ابھی)ایک رات اُن کے ساتھ گزاری تھی کہ اب وہ مجھے قبرص واپس جانے کا حکم فرما رہے تھے، وہ جگہ جسے میں نے پانچ برس سے نہیں دیکھا تھا۔ میرے لئے یہ ایک خوفناک حکم تھا ، لیکن طریقت میں مرید کو ہتھیار ڈال کر اپنے شیخ کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئے۔

"اُن کی دست بوسی و قدم بوسی اور اُن کی اجازت لینے کے بعد ، میں نے قبرص جانے کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ کوئی آمدورفت نہیں تھی۔ جب میں گلیوں میں ان سوچوں میں گھرا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا ، ’’ اے شیخ ، کیا آپ کو سواری کی ضرورت ہے؟ ‘‘ میں نے کہا ، ‘ہاں! تم کہاں جارہے ہو؟ ’اس نے کہا ،‘ طرابلس کی طرف۔ ’وہ مجھے اپنے ٹرک میں لے گیا اور دو دن بعد ہم طرابلس پہنچ گئے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے کہا ، ‘مجھے بندرگاہ پر لے جاؤ۔’ اس نے کہا ، ‘کس لئے؟‘ میں نے کہا ، ‘قبرص کیلئے جہاز تلاش کرنا ہے۔’ اس نے پوچھا ، ‘کیسے؟ اس جنگ ِعظیم میں کوئی بھی سمندر میں سفر نہیں کررہا ہے۔ ’میں نے کہا ،‘ کوئی بات نہیں ، بس مجھے وہاں لے جاؤ۔ ’وہ مجھے ساحل پر لے گیا اور مجھے وہاں اتار دیا۔ میں ایک بار پھر حیرت زدہ رہ گیا جب میں نے شیخ منیر الملکؒ کو میری طرف آتے دیکھا۔ انھوں نے کہا ، "یہ کیسی محبت ہے جو آپکے جدِ امجد(ﷺ) کو آپؒ سے ہے؟ نبی کریم (ﷺ) میرے خواب میں دوبارہ تشریف لائے ہیں اور فرمایا ، ‘‘ میرا بیٹا ناظم آرہا ہے۔ اس کا خیال رکھنا.'"

“میں تین دن اُن کے ساتھ رہا۔ میں نے اُن سے قبرص جانے کا انتظام کرنے میں مدد کرنے کو کہا۔ انھوں نے کوشش کی ، لیکن اس وقت جنگ اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے یہ ناممکن تھا۔ انھیں ایک بادبانی کشتی (Sail Boat) کے سوا کچھ نہیں مل سکا۔ انھوں نے مجھ سے کہا ، ‘آ پ جا تو سکتے ہیں لیکن یہ خطرناک ہے۔‘ میں نے کہا ، ‘مجھے جانا چاہئے ، کیوں کہ یہ میرے شیخ کا حکم ہے۔’ شیخ منیر نے مالک کو مجھے لے جانے کے لئے بھاری قیمت ادا کی۔ ہم نے سفر(کا آغاز)کیا۔ قبرص پہنچنے میں ہمیں سات دن لگے ، یہ سفر جس میں عام طور پر موٹر بوٹ کے ذریعے چار گھنٹے لگتے ہیں۔

جیسے ہی میں نے لینڈ کیا اور قبرص کی سرزمین پر قدم رکھا ، فوراً ہی میرے دل میں ایک روحانی بینائی بیدار ہوئی۔ میں نے شیخ الاعظم عبد اللہ داغستانیؒ کو مجھ سے کہتے ہوئے دیکھا ،‘ اے میرے بیٹے۔ کوئی چیز آپ کو میرے حکم پر عمل کرنے سے روکنے کے قابل نہیں تھی۔ آپ نے سن کر اور مان کر بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اس لمحے سے میں آپ کو ہمیشہ دکھائی دوں گا۔ جب بھی آپ اپنے دل کو میری طرف راغب کریں میں وہاں ہوں گا۔ اگر آپکے پاس کوئی سوال ہے تو آپ کو براہ راست بارگاہِ الہیٰ سے جواب ملے گا۔ آپ جو بھی روحانی مقام حاصل کرنا چاہیں وہ آپکی تسلیم و رضا کی وجہ سے آپ کو عطا کیا جائے گا۔سب اولیاء کرام آپ سے خوش ہیں ، پیغمبرِ اکرم (ﷺ) آپ سے خوش ہیں۔ جیسے ہی انھوں نے یہ فرمایا:میں نے انھیں اپنے ساتھ محسوس کیا ، اور تب سے انھوں نے کبھی مجھے نہیں چھوڑا۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔

مولانا شیخ ناظمؒ نے قبرص میں روحانی رہنمائی اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنا شروع کیا۔ بہت سارے پیروکار ان کے پاس آئے اور سلسلہ نقشبندیہ قبول کیا۔ بدقسمتی سے یہ وہ وقت تھا جب ترکی میں تمام مذاہب پر پابندی عائد تھی ، اور چونکہ وہ قبرص کی ترک برادری میں تھے ، وہاں بھی مذہب پر مکمل طور پر پابندی عائد تھی۔ یہاں تک کہ آذان دینے پر بھی پابندی تھی۔

اپنی جائے پیدائش پر پہنچنے کے بعد آپؒ کا پہلا عمل یہ تھا کہ مسجد جاؤں اور عربی میں آذان دوں ۔آپ کو فوراً ہی جیل بھیج دیا گیا اور آپ ایک ہفتہ جیل میں رہے۔ جیسے ہی انھیں رہا کیا گیا ، وہ "نیکوسیا" کی بڑی مسجد تشریف لے گئے اور اس کے مینار سے آذان دی۔ اس سے اہلکار سخت ناراض ہوگئے اور انہوں نے آپؒ کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ جب وہ قانونی چارہ جوئی کے منتظر تھے ، تو وہ "نیکوسیا" اور آس پاس کے دیہات میں تشریف لے گئے جہاں میناروں سے آذانیں دیں۔ اس کے نتیجے میں ، اور بھی بہت سے مقدمات بنائے گئے ، اور بالآخر آپکے خلاف 114 مقدمات زیر التوا تھے۔ وکلاء نے انہیں آذان نہ دینے کا مشورہ دیا ، لیکن انہوں نے کہا ، "نہیں ، میں(ایسا) نہیں کر سکتا۔ لوگوں کو آذان ضرور سننا چاہیے۔"

سماعت کے دن 112 مقدمات کی سماعت ہوئی۔اگر ان پر مقدمہ چلایا جاتا ہے اور سزا سنائی جاتی ہے تو انھیں 100 سال سے زیادہ کی جیل ہو سکتی تھی۔اسی دن ترکی سے انتخابی نتائج سامنے آئے: عدنان میندریس نامی شخص کو اقتدار میں منتخب کیا گیا۔ بطور صدر ان کا پہلا عمل یہ تھا کہ تمام مساجد کو کھولا جائے اور عربی میں آذان دینے کی اجازت دی جائے۔ یہ ہمارے شیخ الاعظم ؒ کی ایک کرامت  تھی۔

وہاں اپنے (قیام کے) برسوں کے دوران ، حضرت شیخ ناظمؒ نے پورے قبرص کا سفر کیا ، اور انہوں نے طریقت کی تعلیم دینے کے لیے لبنان ، مصر ، سعودی عرب اور بہت سی دوسری جگہوں کا بھی دورہ کیا۔ سن 1952 میں ، جب آپ نے گرینڈشیخؒ کی ایک مریدہ، حاجه آمنہ عادل( قدس اللہ سرہ )سے شادی کی ، تو وہ دمشق واپس تشریف لے گئے ۔ اس وقت سے وہ دمشق میں رہائش پذیر رہے اور ہر سال وہ رجب ، شعبان اور رمضان کے تین مہینوں میں قبرص تشریف لاتے ۔آپؒ کا خاندان آپکے ساتھ دمشق میں رہتا تھا اور جب آپ قبرص تشریف لے جاتے تو وہ وہاں آپکے ساتھ جاتے تھے۔آپؒ کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔

مولانا شیخ ناظمؒ کے سفر :

مولانا شیخ ناظمؒ ہر سال قبرصی عازمین کے قافلے کے لئے بطور رہنما زیارت کیلئے جاتے تھے۔ انہوں نے (ظاہری طور پر) کُل 27 بار سفرِ حج کیا۔

آپ نے گرینڈ شیخؒ کے مریدین اور پیروکاروں کی دیکھ بھال فرمائی۔ ایک بار گرینڈشیخؒ نے حکم دیا کہ وہ دمشق سے پیدل ہی حلب جائیں اور نقشبندی تعلیمات ،علمِ معرفت اور علومِ دین کو عام کرنے کے لئے راستے میں ہر گاؤں میں رکیں۔ دمشق اور حلب کے درمیان فاصلہ تقریبا 400 کلومیٹر ہے۔ جانے اور واپس آنے میں آپؒ کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔آپ ایک یا دو دن چلتے ، کسی گاؤں پہنچ جاتے ، ایک ہفتہ سلسلہ نقشبندیہ کی تعلیمات پھیلاتے ہوئے گاؤں میں گامزن ہوجاتے،جلد ہی آپکا نام اردن کی سرحد سے حلب کے قریب ترکی کی سرحد تک ہر زبان پر آگیا(زبانِ زدِ عام ہوگیا) ۔

اسی طرح ، گرینڈشیخؒ نے ایک بار شیخ ناظمؒ کو قبرص سے پیدل گزر کا حکم دیا۔آپؒ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں چلتے رہے ، اور لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے رہے ، کہ وہ الحاد ، سیکولرازم اور مادیت کو چھوڑ دیں اور اللہ کی طرف لوٹ آئیں۔ آپ پورے قبرص میں اس قدر معروف اور اس قدر محبوب تھے کہ آپکے عمامہ شریف اور پوشاک کا رنگ ، ایک گہرا سبز رنگ تھا، پورے جزیرے میں "شیخ ناظم سر سبز " (شیح ناظم یلباس) کے نام سے مشہور ہوئے۔

حالیہ برسوں میں انہوں نے ملک ترکی میں بھی اسی طرح پیدل سفر کیا ہے۔ 1978 سے ہر سال ، انہوں نے ترکی کے ایک علاقے میں تین سے چار ماہ کا سفر طے کیا۔ ایک سال میں آپؒ نے استنبول ، یلووا ، برصا ، ایسکیشہر اور انقرہ کے علاقے کا سفر کیا۔ ایک اور میں آپ نے قونیا ، اسپرٹا ،قر شہر کا سفر کیا۔ ایک اور سال میں ، انھوں نے جنوبی سمندری ساحل ، ادانا سے ، مرسن ، الانیا ، ازمیر ، انطالیہ کا سفر کیا۔ پھر ایک اور سال وہ مشرقی طرف ، دیار باقر ، ایرزورم ، عراق کی سرحد تک تشریف لے گئے۔ آپنے بحیرہ اسود پر بھی چند روزہ قیام فرمایا، ایک ضلع سے دوسرے ضلع ، ایک شہر سے دوسرے شہر ، ایک مسجد سے دوسری مسجد میں ، اللہ کے کلام کو پھیلاتے ہوئے ، اور جہاں بھی گئے روحانیت اور نور پھیلاتے ہوئے

جہاں بھی وہ سفر فرماتے عام لوگوں کا ایک ہجوم(جم غفیر)اُن کا خیرمقدم کیا کرتا تھا ، اور عہدیداروں اور سرکاری لوگوں کا بھی۔آپ پورے ترکی میں القبرصی کے پیارے عرفی نام سے جانے جاتے ہیں۔

 

مولانا شیخ ناظمؒ کی خلوت نشینی :

شیخ عبداللہ الداغستانیؒ کے حکم سے آپؒ کی پہلی گوشہ نشینی(خلوت)1955 میں اُردن کے شہر سیویلہ میں ہوئی۔ وہاں آپؒ نے چھ مہینے تنہائی میں گزارے۔ آپؒ کی موجودگی کی طاقت اور پاکیزگی نے ہزاروں مریدوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ،حتیٰ کہ سیویلہ اور اس کے آس پاس کے دیہات ، رمتا اور عمان شیخ کے مریدین سے معمور ہو گئے۔ اسکالرز ،سرکار اہلکار اور بہت سارے لوگ آپکے (فیضانِ)نور اور آپکی شخصیت کی طرف راغب ہوگئے۔

آپؒ کو ہمارے گرینڈ شیخ ، عبد اللہ الفائز الداغستانیؒ نے بلایا۔ انھوں نے آپؒ سے فرمایا؛"مجھے آپ کے لیے نبی اکرم(ﷺ) کا حکم ملا ہے کہ آپ بغداد میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مسجد میں خلوت اختیار کریں۔ وہاں جاکر چھ ماہ کے لئے الگ تھلگ(گوشہ نشین) ہوجائیں۔

اس واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے ، شیخ ناظمؒ فرماتے ہیں :

"میں نے ( حضرت )شیخ سے کوئی سوال نہیں کیا۔ میں اپنے بھی گھر واپس نہیں گیا۔ میں نے اپنے قدم فوری طور پر شہر میں مارجہ کی طرف موڑے۔ میں نے سوچا ہی نہیں ، ‘مجھے کپڑوں کی ضرورت ہے ، مجھے پیسوں کی ضرورت ہے ، مجھے رزق کی ضرورت ہے۔’ جب انھوں نے کہا ، ‘جاؤ!’ میں چل پڑا!۔ میں سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ  کے ساتھ خلوت اختیار کرنے کے لئے تیار تھا۔ میں سیدھا مارجہ چلا گیا۔ جب میں چلتا ہوا شہر کے بیچ پہنچا تو دیکھا کہ ایک شخص میری طرف دیکھ رہا ہے۔ اس نے میری طرف دیکھا اور اس نے مجھے پہچان لیا۔ اس نے کہا ، ’’ شیخ ناظم ، آپ کہاں جارہے ہو؟ ‘‘ میں نے کہا ، ‘بغداد کی طرف’ وہ گرینڈشیخ کا مرید تھا۔ اس نے کہا ، ‘میں خود بغداد جارہا ہوں!’ اس کے پاس بغداد سامان لے جانے کے لئے سامان کا ٹرک تھا۔ تو وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا۔

“جب میں سیدنا عبد القادر جیلانیؒ کی مسجد میں داخل ہوا تو وہاں ایک بڑی ( جسامت کا) آدمی مسجد کا دروازہ بند کر رہا تھا۔ اس نے کہا ، ’’شیخ ناظمؒ ! ‘‘ جی ، ’’ میں نے جواب دیا۔ اس نے کہا ، ‘میں آپکے یہاں قیام کے دوران آپکے خادم کے فرائض انجام دینے کیلئے منتخب کیا گیا ہوں۔ میرے ساتھ چلیے۔ ’مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ، لیکن میرے دل کو کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہم طریقت میں جانتے ہیں کہ ہر چیز ہمیشہ حکمِ خداوندی کے ذریعہ ترتیب دی جاتی ہے۔وہ اسکی پیروی کی اور شفاعت کرنے والے (غوث الاعظم) کی قبر کے قریب پہنچا،اور میں نے اپنے نانا سیدنا عبد القادر جیلانیؒ کو سلام کیا۔ تب وہ مجھے ایک کمرے میں لے گیا اور مجھ سے کہا ، ‘میں ہر روز روٹی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ دال کے سوپ کا ایک پیالہ پیش کروں گا۔ '

“میں اپنے کمرے سے صرف پانچ نمازوں کے لئے نکلا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے اپنا پورا وقت اس کمرے میں گزارا۔ میں اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ میں نو گھنٹے میں پورا قرآن کریم تلاوت کرسکتا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے کلمہ (لا الہ الا اللہ) کے 124،000 ذکر اور 124،000 صلوات (نبی کریم ﷺ) کی تلاوت کے علاوہ پوری دلائل الخیرات بھی تلاوت کرلی۔ اس کے علاوہ میں روزانہ 313،000 ‘اللہ اللہ’ پڑھ رہا تھا ، ساتھ ہی وہ تمام دعائیں بھی جو مجھے تفویض کی گئیں تھیں۔ کشف کے بعد کشف مجھے ہر روز ظاہر ہوتے تھے۔ یہ نظارے مجھے ایک حال سے دوسرے حال میں لے گئے یہاں تک کہ میں بارگاہِ الہٰیہ (ذاتِ خداوندی) میں فنا ہوگیا۔

“ایک دن میں نے ایک کشف دیکھا کہ سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ مجھے اپنی قبرِ مبارک پر بلا رہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے ،’ ’اے بیٹے میں اپنی تربتِ پاک پر آپکا انتظار کر رہا ہوں۔ آؤ! ’فورا ہی میں نے غسل لیا ،دو رکعت نماز ادا کی اور میں اُن کے مقام پر چلا گیا جو میرے کمرے سے کچھ ہی فاصلے پرتھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے غور و فکر کرنا شروع کیا اور میں نے کہا ، السلام علیک یا جدی (میرے دادا حضور آپ پر سلام ہو)۔ دفعتًا میں نے انھیں قبرِ مبارک سے باہر آتے ہوئے دیکھا اور آپ میرے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ آپ(ق)کے پیچھے نایاب پتھروں سے سجا ہوا ایک بڑا عرش تھا۔ آپؒ نے مجھے فرمایا، 'میرے ساتھ چلو اور اس تخت پر میرے ساتھ بیٹھو'

“ہم یوں بیٹھ گئے جیسے پوتا اپنے دادا کے ساتھ بیٹھا ہو۔ وہ مسکراتے ہوئے فرما رہے تھے ، ‘میں آپ سے خوش ہوں۔ سلسلہ نقشبندیہ میں آپکے شیخ عبد اللہ الفائزالداغستانی (قدس اللہ سرہ) کا مقام بہت اونچا ہے۔ میں آپکا دادا ہوں اور بطورِ غوث الاعظم جو طاقت میں رکھتا ہوں، وہ بے توسط خود سے آپکو عطا کر تا اور اب میں آپ کو قادری سلسلہ کی اجازت عطا کرتا ہوں۔

جب شیخ ناظمؒ نے اپنا اعتکاف(خلوت) مکمل کیا اور رخصت ہونے ہی والے تھے ، کہ آپ سیدنا عبدالقادر جیلانی (قدس اللہ سرہ ) کی قبرِ انور پر الوداع کرنے تشریف لے گئے۔سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ اُن کے سامنے جسمانی طور پر حاضر ہوئے اور فرمایا" بیٹے! سلسلہ نقشبندیہ میں آپ جن مقامات کو پہنچے ہیں اُن سے میں بہت خوش ہوں۔ میں سلسلہ قادریہ کے ذریعہ مجھ سے آپکے آغاز کی تجدید کر رہا ہوں۔پھر سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا، "اے میرے پوتے(شیخ ناظم)، میں آپ کو آپکے دورے کا ایک ٹوکن (نشانی) پیش کرنے جارہا ہوں۔" انھوں نے آپ کو گلے لگایا اور آپ کو دس سکے عطا کیے۔ یہ سکے اُس دور کے تھے جو اُن (شیخ عبدالقادر) کا زمانہ تھا، ہمارے دور سے نہیں تھے۔ آج تک ، شیخ ناظمؒ نے وہ سکے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔

نکلنے سے قبل، شیخ ناظمؒ نے اُن شیخ کو جس نے آپکی گوشہ نشینی کے دوران آپؒ کی خدمت کی تھی ،اپنا جبہ بطورِ یادگار عنایت فرمایا۔آپؒ نے ان سے سے فرمایا کہ ، "میں نے اپنی ساری خلوت کے دوران یہ جبہ استعمال کیا تھا، یہاں تک کے سونے کے لئے چٹائی کے طور پر بھی ،اور نماز پڑھتے ہوئے اور ذکر کرتے وقت کپڑے کے طور پر بھی ۔ اسے اپنے پاس رکھیں اور اللہ آپ کو برکت عطا فرمائے اور سیدنا محمد(ﷺ) آپ کو برکت عطا فرمائیں اور اس طریقہ کے تمام اولیاء آپ کو برکت دیں۔ شیخ نے وہ جبہ لیا، اسے چوما ، اور اسے پہن لیا۔ مولانا شیخ ناظمؒ بغداد سے نکلے اور شام کے دارالحکومت دمشق چلے گئے۔

1992 میں، جب شیخ ناظمؒ ، لاہور ، پاکستان کا دورہ کر رہے تھے ، تو انہوں نے شیخ داتا علی ہجویریؒ کے مزار شریف کا دورہ کیا۔ قادری طریقت کے شیخ نے آپؒ کو اپنے گھر مدعو کیا ، اور شیخ ناظم ق نے وہیں رات بسر کی۔ فجر کے وقت ، شیخ نے کہا ، "اے میرے شیخ سلطان الاولیاء مولانا شیخ ناظمؒ ،میں نے آپ کو ایک بہت ہی قیمتی جبہ شریف دکھانے کے لئے آج رات یہاں رکھا ہے،جو 27 سال پہلے ہمیں وراثت میں ملا ہے۔ یہ قادری سلسلے کے ایک عظیم شیخ سے دوسرے تک بغداد سے پہنچا تھا ، اور آخر کار یہ ہم تک پہنچا۔ ہمارے تمام شیوخ نے اسے محفوظ کر کے رکھا ہے ، کیوں کہ یہ اس زمانے کے غوث کی ذاتی پوشاک تھی۔

“نقشبندی طریقت کے ایک ترک شیخ نے سیدنا شیخ عبدالقادرؒ کی مسجد اور مزار میں خلوت نشینی اختیار فرمائی تھی۔“ جب مولانا شیخؒ نے اپنا اعتکاف مکمل کرلیا تو انھوں نے جبہ مبارک ایک تحفے کے طور پر ایک قادری شیخ کو دیا جو ان کی خلوت کے دوران اُن کی خدمت کرتا تھا۔اُس قادری شیخ نے انتقال سے قبل اپنے جانشینوں کو حکم دیا کہ وہ اس پوشاک کا بہت زیادہ خیال رکھیں ، کیونکہ اگر کوئی اسے پہنے تو وہ ہر بیماری سے شفا پائے گا۔بارگاہِ الہیٰ (عرفانِ حق) کی راہ میں، اس پوشاک پہنے ہوئے کسی بھی سالک کو آسانی سے کشف کے اعلیٰ درجات تک پہنچا دیا جائے گا۔

اُس نے الماری کھولی اور شیشے کے کیس میں محفوظ جبہ مبارک کو منکشف(باہر نکالا) کیا۔ شیخ ناظمؒ مسکرا رہے تھے۔ شیخ نے آپؒ سے دریافت کیا ، "یا شیخ یہ کیا ہے؟" شیخ ناظم ق نے فرمایا"اس(واقعے)نے مجھے پُرمسرت کردیا۔ یہ وہی جبہ ہے جس کو میں نے اپنی خلوت کے اختتام پر قادری شیخ کو عطا کیا تھا۔ جب شیخ نے یہ سنا تو اُس نے شیخ ناظمؒ کے دستِ مبارک کا بوسہ لیا ،قادری طریقت میں اپنی تجدیدِ بیعت کرنے اور نقشبندی طریقت میں بیعت کرنے کی درخواست کی۔اللہ اپنے مخلصین اور محبوب بندوں کے ذریعے،اپنے اولیاء کرام کا،وہ جہاں بھی جاتے ہیں، بہت خیال رکھتا ہے۔

آپؒ کی حیاتِ مبارکہ ہمیشہ بہت مصروفیت میں گزری۔آپؒ اللہ کے راستے(راہِ حق)کے مسافر ہیں، کبھی گھر پر نہیں رکتے، ہمیشہ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف پیش قدمی فرماتے رہتے ہیں۔ ایک دن وہ مشرق میں ہیں اور دوسرے دن مغرب میں۔ ایک دن وہ شمال میں ہیں تو دوسرے ہی دن جنوب میں۔آپ نہیں جانتے کہ وہ ایک دن سے دوسرے دن کہاں ہونگے۔آپؒ مفاہمت و امن اور عالمِ فطرت کے تحفظ کی ترغیب دینے کے لئے ہمیشہ عہدیداروں سے ملاقات فرماتے۔ وہ ہمیشہ بنی نوع انسان کے دلوں میں محبت اور امن اور ہم آہنگی کے بیج بوتے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان کی تعلیمات کی روح سے تمام مذاہب مفاہمت کی راہیں تلاش کریں گے اور امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے لئے اختلافات کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

دنیا کے مستقبل کے بارے میں اُن کی پیش گوئیاں گرینڈشیخ عبد اللہ الفائز الداغستانیؒ کی پیش گوئیوں کا تسلسل ہیں ، واقعات کے ہونے سے قبل ان کا اعلان کرنا ، لوگوں کو متنبہ کرنا اور جو کچھ ہونے والا ہے اس کی طرف ان کی توجہ مبذول کروانا۔ متعدد بار انہوں نے فرمایا ہے کہ ، "کمیونزم مغلوب ہونے والا ہے اور سوویت یونین ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔آپؒ نے پیش گوئی فرمائی کہ ‘ "برلین دیوار" گر جائے گی۔

صوفی سلسلہ نقشبندیہ کی گولڈن چین کا راز آپؒ کے ہاتھ میں ہے۔آپؒ اسے سب سے زیادہ طاقت کے ساتھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ ہر طرف چمک رہی ہے۔ اللہ عزوجل آپؒ پر فضل و کرم فرمائے اور آپؒ کے مبارک مقصد میں برکات کا نزول فرمائے۔

اللہ تعالیٰ پیارے نبی کریمﷺ، ان کے اہل خانہ ، ان کے ساتھیوں ، اور تمام انبیاء و اولیاء ، خصوصاََ سلسلہ نقشبندیہ میں اُن کے احباب اور دیگر سلاسل سے بھی ، اور خاص طور پر اِس وقت میں اُن کے ولی حضرت مولانا شیخ محمد ناظم عادل الحقانی قدس اللہ سرہ پر بےشمار درود و سلام ، برکات ،اور انوار نازل فرمائے۔

آَمِیْنْ بِحُرْمَةِ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفیٰ ﷺ

استفادہ از : https://www.nurmuhammad.com/urdu